سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ مجھے نکالنے کا منصوبہ امریکا سے نہیں پاکستان سے امریکا گیا تھا، جنرل (ر) باجوہ امریکیوں کو سمجھانے میں کامیاب ہوگئے تھے کہ میں امریکا مخالف ہوں۔
امریکی نیوز چینل وائس آف امریکا کو دیئے گئے انٹرویو میں پاک فوج کے ساتھ تعلقات میں اتار چڑھاؤ سے متعلق پوچھے گئے سوال پر عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں فوج کا مطلب ایک آدمی ہے اور وہ آرمی چیف ہے۔ سویلین حکومت کے ساتھ معاملات کے حوالے سے فوج کی ساری پالیسی اسی ایک انسان کی شخصیت پر منحصر ہے۔
عمران خان نے کہا کہ جنرل (ریٹائرڈ) قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ہمارے تعلقات کے دوران مثبت پہلو یہ تھا کہ ہم ایک پیج پر تھے، جس کا مطلب یہ تھا کہ ہمارے پاس مدد کے لیے پاک فوج کی منظم طاقت تھی اور ہم نے مل کر کام کیا۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اب مسئلہ یہ تھا کہ جنرل (ریٹائرڈ) باجوہ نے اس ملک کے چند بڑے بدمعاشوں کی حمایت کی، وہ کرپشن کو کوئی بڑا مسئلہ نہیں سمجھتے تھے، اور وہ چاہتے تھے کہ ہم ان کے ساتھ مل کر کام کریں۔ انہیں بدعنوانی کے مقدمات سے استثنیٰ دیا جائے۔
جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے عمران خان نے مزید کہا کہ ان کے موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ بہت گہرے تعلقات تھے۔ اور کسی وجہ سے اس نے سازش کی اور یہ حکومت کی تبدیلی واقع ہوئی.
عمران خان نے کہا کہ طاقت کے توازن کا اہم اصول یہ ہے کہ منتخب حکومت جس کے پاس ذمہ داری ہے، جسے لوگوں نے مینڈیٹ دیا ہے، اس کے پاس اختیار بھی ہونا چاہیے۔ آپ ذمہ داری اور اختیار الگ الگ نہیں کر سکتے۔ اگر اختیار آرمی چیف کے پاس ہے اور ذمہ دار وزیر اعظم ہو تو پھر نظام کام نہیں کرتا۔
الیکشن کمیشن کے حوالے سے عمران خان نے کہا ہے کہ موجودہ الیکشن کمیشن نے ادارے کی غیر جانبدارانہ ساکھ مکمل طور پر تباہ کر دی ہے۔ اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں انتخابات تو ہوں گے لیکن آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہوں گے۔
عمران خان نے کہا کہ انتخابات ہارنے کی صورت میں نتائج تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا سوال قبل ازوقت ہے، ابھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ کس حد تک دھاندلی کریں گے، سندھ میں بلدیاتی الیکشن ہوا، تمام سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی الیکشن کو مسترد کر دیا، اس لئے دھاندلی کے پیمانے سے متعلق ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
افغان طالبان سے تعلقات کے حوالے سے عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں جو بھی حکومت ہو، پاکستان کے ان کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے چاہیئے، میں نے اشرف غنی حکومت کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کی پوری کوشش کی کیونکہ ہماری ان کے ساتھ 2500 کلومیٹر طویل سرحد ہے۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے موجودہ وزیر خارجہ (بلاول بھٹو زرداری) نے تقریباً سارا وقت پاکستان سے باہر گزارا ہے، لیکن انہوں نے افغانستان کا ایک بھی دورہ نہیں کیا۔ میرے خیال میں ہم دہشت گردی کے خلاف ایک اور جنگ کی پوزیشن میں نہیں، اور واحد راستہ یہ ہے کہ کسی طرح کابل کو ہمارے ساتھ کام کرنے پر مجبور کیا جائے تاکہ ہم مشترکہ طور پر اس مسئلے سے نمٹ سکیں۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ جب افغان طالبان نے اقتدار سنبھالا اور انہوں نے ٹی ٹی پی سے متعلق فیصلہ کیا، ہم 30 سے 40 ہزار لوگوں کی بات کررہے ہیں، جن میں ان کے اہل خانہ بھی شامل ہیں، کیا ہمیں صرف ان کو قطار میں کھڑا کر کے گولی مار دینی چاہیے تھی، یا انہیں دوبارہ آباد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی؟، ہمارا خیال تھا کہ ان خاندانوں کی آباد کاری سرحد کے ساتھ ہونی چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوسکا کیونکہ ہماری حکومت چلی گئی۔
اپنی حکومت کے خلاف مبینہ امریکی سازش کے حوالے سے عمران خان نے کہا کہ بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد رہنماؤں کے ذاتی انا کے بجائے لوگوں کے مفاد پر ہونی چاہیے۔ پاکستان کے امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور امریکا ہمارا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے، اب جیسے جیسے معاملات سامنے آرہے ہیں، اس کے مطابق بدقسمتی سے جنرل (ر) باجوہ کسی نہ کسی طرح امریکیوں کو بتانے میں کامیاب ہو گئے کہ میں امریکا مخالف ہوں، اور مجھے نکالنے کا منصوبہ وہاں سے نہیں بلکہ یہاں سے وہاں گیا تھا۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ سائفر ایک حقیقت ہے، جس میں یہ ایک باضابطہ میٹنگ کا احوال لکھا گیا تھا، لیکن اب یہ ماضی کی بات ہے، ہمیں آگے بڑھنا ہوگا۔ امریکا سے اچھے تعلقات پاکستان کے مفاد میں ہیں اور ہم یہی چاہتے ہیں۔
from Samaa - Latest News https://ift.tt/XSBYbfe
via IFTTT
0 تبصرے