Breaking News

header ads

بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام شفافیت برقرار رکھنے میں ناکام

2008 سے مستحق خواتین میں امدادی رقوم تقسیم کرنے والا ٹرانسپیرنسی ایوارڈ یافتہ ادارہ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام شفافیت برقرار رکھنے میں ناکام ہوگیا۔

پاکستان کا سب سے بڑا سوشل سیفٹی نیٹ ورک جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 50 لاکھ سے زیادہ غریب اور مستحق خواتین کو مالی امداد فراہم کرتا ہے لیکن عوام کی جانب سے اس کی شفافیت پر بہت سے سوال اٹھائے گئے ہیں جس سے معاشرے کی بہت سی مستحق خواتین تک یا تو امداد پہنچ نہیں پاتی یا پھر ان خواتین کو امداد کا کچھ حصہ بائیو میٹرک عملہ، ایجنٹس اور اس قسم کے دیگر افراد کو دینا پڑتا ہے۔

دوسری جانب ادارے کی جانب سے واضح ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ بائیومیٹرک پراسس کے ذریعے رقم نکالنے والا عملہ یا دیگر کوئی بھی شخص اگر کسی خاتون سے رقم یا فیس کا مطالبہ کرے تو فوری طور پر ٹال فری نمبر یا ضلعی، تحصیل دفتر میں رابطہ کریں۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز 2008 میں ہوا جب ارکان اسمبلی کی معاونت سے مستحق خواتین کو ایک ہزار روپے وظیفہ شروع کیا گیا اس وقت مستحق لوگوں کے انتخاب کے لیے نیشنل سوشیو اکنامک رجسٹری کے ذریعے سروے کرایا گیا۔ اس کے بعد یہ سروے 11-2010میں کرایا گیا جس میں مستحق خاندانوں کی تعداد بڑھ گئی۔

21-2020 میں حکومت کی جانب سے تھرڈ پارٹی سے سروے کرایا گیا جس میں خاندان کی اہلیت کے لیے زیرو سے 100 نمبر اور پی ایم ٹی یعنی پراکسی مینز ٹیسٹ کے ذریعے اہل گھرانوں کی شناخت کی جاتی ہے۔

یہ سروے مستحق گھرانے کے گھر کا سائز، رہائش اور بیت الخلا کی سہولیات کی قسم، تعلیم، گھریلو اثاثے، زرعی زمین، اور مویشیوں کی ملکیت جیسے 12 اہم سماجی و اقتصادی اشاریوں پر ڈیٹا بھی فراہم کرتا ہے۔ ان سب چیزوں کو مد نظر رکھ کر سروے میں پوائنٹ نوٹ کیے جاتے ہیں۔

سروے میں رجسٹری سے متعلق سماجی و اقتصادی ڈیٹا موجود ہے جو ملک بھر میں 150 ملین سے زیادہ آبادی پر مشتمل ہے اور کل آبادی کا 85 فیصد بنتا ہے اس طرح ملک کے 27 ملین سے زائد کا ڈیٹا اس سروے کے تحت اکٹھا کیا گیا ہے۔

اگر صوبے کے لحاظ سے بات کریں تو پنجاب میں ایک کروڑ 48 لاکھ 80 ہزار سے زائد، سندھ میں 66 لاکھ ، خیبر پختونخوا 36 لاکھ، بلوچستان میں 11 لاکھ، آزاد جموں و کشمیر میں تقریبا 5 لاکھ 80 ہزار، گلگت بلتستان میں ڈیڑھ لاکھ اور فاٹا میں 4 لاکھ گھرانوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔

پروگرام کے نتائج حاصل کرنے کے لیے یہ یقینی بنانا ضروری تھا کہ صحیح لوگوں کو صحیح وقت پر شفاف اور موثر انداز میں اور کم سے کم غلطی اور غلط استعمال کے ساتھ فائدہ کی رقم ملے۔

ہم جاننے کی کوشش کریں گے کہ خواتین کو عام طور پر کون سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا اور ان کے حل کے لیے سٹاف اور دفاتر کس حد تک کردار ادا کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ امدادی رقوم کی تقسیم میں شفافیت کا معیار جانچنے کی بھی کوشش کی جائے گی۔

اس پروگرام میں ہر صوبے میں ادارہ ایک بینک کے ساتھ رقم کی تقسیم کا معاہدہ کرتا ہے پنجاب میں یہ معاہدہ حبیب بینک لمیٹڈ سے کیا گیا ہے۔ بینک کی جانب سے مختلف علاقوں سے ڈیلرز کو ایک بائیو میٹرک ڈیوائس جاری کی جاتی ہے جو خواتین کے شناختی کارڈ اور بائیو میٹرک تصدیق کے بعد مطلوبہ رقم ایک رسید کے ساتھ خاتون کے حوالے کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔

بائیومیٹرک پوائنٹس پر رقم جاری کرنے کے حوالے سے خواتین کے اعتراضات ہیں کہ مطلوبہ رقم کی بجائے پوائنٹس پر موجود شخص کٹوتی کر کے رقم ادا کرتا ہے۔

خواتین کی جانب سے لمبی لائن میں پہلے رقم جاری کرنے اور دیگر مد میں رقم کٹوتی کی جاتی ہے جبکہ خواتینمیں اکثر ناخواندہ یا کم پڑھی لکھی ہوتی ہیں انہیں اس بارے پتا نہیں چلتا اس کے علاوہ خواتین کو ادائیگی کٹوتی کے ساتھ مشروط کر دی جاتی ہے۔ جس پر وہ رقم کٹوتی کرائے بغیر مطلوبہ رقم حاصل نہیں کر سکتیں ۔

علاوہ ازیں خواتین کو چونکہ رقم کسی ملازمت یا کام کی مد میں نہیں دی جاتی بلکہ یہ امدادی رقم ہوتی ہے تو وہ سمجھتی ہیں کہ جتنی رقم بھی مل جائے اس پر آمین، کیونکہ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ان خواتین کو شکایات کا طریقہ کار اور قواعد بارے زیادہ آگاہی نہیں ہوتی جو ادارے کی نااہلی ہے۔

لڈن روڈ پر واقع نواحی علاقہ پل کھادر کی رہائشی خاتون بی بی حبیب بینک ڈی بلاک وہاڑی برانچ کے سامنے لمبی لائن میں کھڑی اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی۔ بات کرنے پر 52 سالہ خاتون بی بی کا کہنا تھا کہ تین دن سے روزانہ صبح 7 بجے آکر لائن میں کھڑی ہوجاتی ہوں حالانکہ میری باری پہلی 10 سے 15 خواتین کے بعد ہوتی ہے لیکن حیرت ہے کہ بینک کے نمائندے کی جانب سے مزید خواتین کو مجھ سے آگے شامل کر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ میرا نمبر 30 سے بھی بعد میں چلا جاتا ہے۔

خاتون بی بی کا کہنا تھا کہ اگر بینک کی جانب سے لائن بنوانے والے لڑکے سے بات کروں تو انتہائی تضحیک آمیز لہجے میں بات کرتے ہوئے ایک ہی جواب دیتا ہے’’مائی پیسے لینے ہیں تو کھڑی رہو ورنہ گھر جاؤ، بحث کر کے ہمارا وقت ضائع نہ کرو‘’۔

خاتون بی بی بتاتی ہیں کہ جن خواتین کو زیادہ جلدی ہوتی ہے ان سے ایک ہزار روپے کٹوتی کرتے ہیں اور جن کو کچھ کم جلدی ہوتی ہے ان سے 5 سو روپے کٹوتی کی جاتی ہے۔

جب خاتون بی بی سے سوال کیا گیا کہ رقم تو مکمل ادا کرنے اور رسید جاری کرنے کا مکمل طریقہ ہے، تو کہنے لگی کہ وہ پہلے ہی سمجھا دیتے ہیں کہ آپ کو پوری رقم کی رسید جاری کریں گے اور ساتھ وہ پوری رقم کی تصویر بھی بناتے ہیں اس کے بعد کٹوتی والی رقم رکھتے ہیں۔

خاتون بی بی نے مزید بتایا کہ اس کا بھی دل چاہتا ہے کہ ایک ہزار یا 5 سو روپے کی کٹوتی کرائے اور وقت سے گھر کو جائے لیکن اسے گھر کا سسٹم چلانے کے لیے پائی پائی کی ضرورت ہے اس لیے وہ انتظار کرلیتی ہے۔

ماہ دسمبر میں بوریوالہ کے رہائشی محمد طلحہ رزاق نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن شازیہ عطا مری کو ایک درخواست گزاری جس میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بوریوالا عاصمہ ربانی کے بارے میں شکایت کی گئی کہ 2017 میں ان پر کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات لگے جس پر انہیں ٹرانسفر کر دیا گیا تھا بعد ازاں انہیں الزامات سچ ثابت ہونے پر محکمانہ سزا بھی ہوئی لیکن 2022 میں انہیں دوبارہ بوریوالا میں تعینات کر دیا گیا ہے۔

شکایت میں کہا گیا ہے کہ عاصمہ ربانی نے ایک بات پھر اپنے منصب کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے رقم تقسیم کرنے والے ایجنٹوں سے ماہانہ رشوت وصولی کا مطالبہ کیا ہے اور یہ کہ اگر وہ رشوت نہیں دیں گے تو ان کا کام بند کر کے ان پر مقدمات درج کرائے جائیں گے۔

درخواست گزار نے مزید بیان کیا کہ بوریوالہ سے 5 سے زائد ایجنٹس کو رقم کٹوتی کی مد میں ناجائز بلاک کرایا گیا اور بعد ازاں ان سے ایک ایک لاکھ روپے وصول کر کے ان بلاک کر دیا گیا۔

درخواست گزار نے نواحی علاقہ گگو منڈی کے ایجنٹ بابر بک ڈپو کے خلاف زائد کٹوتی کی اطلاع پر اس کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی بھی شکایت اور اس کو بلاک کرنے کی بجائے کٹوتی کی رقم واپس کروا کے بچا لیا گیا۔اس نے الزام لگایا کہ گگو منڈی کے ایجنٹ شریف بک ڈپو سے بھی اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے رقم کا مطالبہ کیا اور رقم نہ دینے پر اسے بلاک کروا دیا گیا۔ درخواست گزار نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عاصمہ ربانی کے خلاف انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔

اسسٹنٹ ڈائریکٹر عاصمہ ربانی سے رابطہ کرنے پر انہوں نے مکمل خاموشی کا اظہار کیا اور اس حوالے سے کچھ بھی بتانے یا حقائق سے آگاہ کرنے سے گریز کیا ۔

لڈن روڈ پر واقع نواحی علاقہ رتہ ٹبہ میں بائیومیٹرک سینٹر پر خواتین سے پیسوں کی کٹوتی کرنے کا انکشاف ہوا تو وہاں پر موجود چند خواتین جنہوں نے پیسے نکلوائے تھے ان کے پیسے گنے گئے تو 5 سو روپے کم پائے گئے۔

خاتون خورشید بی بی نے بتایا کہ ہم سے انگوٹھے لگوانے کے بعد جو پیسے دیتے ہیں ان کی تصویر بھی بنائی جاتی ہے لیکن اسی وقت پیسے گننے کی مہلت نہیں دی جاتی مزید یہ کہ زیادہ رش کی وجہ سے ان کا کام مزید آسان ہوجاتا ہے ہم جب باہر نکل کر پیسے گنتی کرتی ہیں تو 5 سو روپے کم ہوتے ہیں اس کے بعد ایک تو شکایت کوئی سنتا نہیں اگر بات کرنے کا موقع مل بھی جائے تو یہ کہہ کر سائیڈ پر کر دیتے ہیں کہ ہم نے تو پیسے پورے دیے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس حوالے سے شکایت کرنے کا طریقہ معلوم نہیں اور نہ ہی ہم پڑھے لکھے ہیں کہ درخواست وغیرہ دیں اور نہ ہی ہمارے پاس اپنی بات ثابت کرنے کا کوئی ثبوت ہوتا ہے چاروناچار ہمیں جتنے پیسے ملتے ہیں لے کر گھر کو چل دیتے ہیں۔

وہاڑی کے علاقہ دانیوال ٹاون میں بائیومیٹرک سنٹر پر لائن میں کھڑی فرزانہ بتاتی ہیں کہ ہم غریب ہیں یہ رقم ہمارے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے لیکن رقم جاری کرنے والے سنٹرز پر خواتین کے لیے بنیادی سہولیات مثلا پینے کے لیے صاف پانی، گرمی اور سردی سے بچنے کے لیے سایہ کا انتظام کچھ بھی میسر نہیں ہوتا اس پر یہ کہ ان سینٹرز پر موجود لوگ انتہائی بد اخلاقی سے پیش آتے ہیں یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم کسی جرم کی سزا کاٹنے آئے ہیں اگر اتنے ضرورت مند نہ ہوتے تو اپنی عزت نفس بچانے کے لیے کبھی رقم لینے نہ آتے۔

انہوں نے ادارے کے اعلی افسران سے مطالبہ کیا ہے کہ امدادی رقم کے حصول کو باعزت بنایا جائے ہم بوڑھی خواتین کی تذلیل کر کے امدادی رقم فراہم کرنے کا طریقہ مناسب نہ ہے۔

ڈپٹی ڈائریکٹر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ظہیر عباس کے مطابق وہاڑی میں ایک لاکھ 17 ہزار خواتین بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے فائدہ اٹھا رہی ہیں جن میں تحصیل وہاڑی کی 36 ہزار، تحصیل میلسی کی 48 ہزار اور تحصیل بوریوالا کی 33 ہزار خواتین شامل ہیں۔

ظہیر عباس کا کہنا ہے کہ نیشنل سوشیو اکنامک رجسٹری کے تحت پہلا سروے 2008 میں کیا گیا اس کے بعد 2010 میں سروے کیا گیا سروے میں مختلف معلومات لی جاتی ہیں جس کے سکور کو مد نظر رکھتے ہوئے اہلیت کا معیار بنایا گیا ہے۔ خواتین کو 2010 میں ایک ہزار روپے ماہانہ غیر مشروط کیش گرانٹ سے آغاز ہوا تھا مختلف وقت میں رقم کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے 2022 سے ہر 3 ماہ بعد اہل خواتین کو 7 ہزار روپے کی امدادی رقم ملتی ہے۔

ڈپٹی ڈائریکٹر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام نے بتایا کہ پنجاب میں حبیب بینک کی جانب سے بائیومیٹرک پراسس کے بعد رقم خواتین کے حوالے کی جاتی ہے اگر کہیں قواعد کی خلاف ورزی مثلا رقم کٹوتی وغیرہ کی شکایت موصول ہو تو اس اکاؤنٹ ہولڈر کو بلاک کر دیا جاتا ہے اور اس کے خلاف مقدمہ درج کرایا جاتا ہے۔ وہاڑی میں اب تک ہوئی کاروائیوں اور مقدمات کی تفصیل پر انہوں نے بتایا کہ یہ ڈیٹا دینے کی اجازت ادارہ کی جانب سے نہ ہے۔

حبیب بینک کنیکٹ ضلع وہاڑی میں انچارج آصف نے بتایا کہ ضلع بھر میں 360 مقامات پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حوالے سے رقم نکالنے کے لیے سہولیات فراہم کی گئی ہیں اور حکومت کی جانب سے بتائے گئے ایس او پیز کے مطابق کوائف مکمل کرنے کے بعد ہی کسی دکاندار کو ڈیوائس جاری کی جاتی ہے اور ایس او پیز کی خلاف ورزی پر دکاندار سے سہولت واپس لے کر اس کے خلاف کاروائی بھی کی جاتی ہے۔

آصف نے بتایا کہ اب تک کتنے لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی، ڈیوائس کے حصول کے ایس او پیز کیا ہیں اس حوالے سے بتانے سے انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہمیں یہ معلومات کسی سے بھی شیئر کرنے کی اجازت نہ ہے۔

معروف قانون دان اعجاز حسین مغل کا کہنا ہے کہ عوامی دلچپسی اور مفاد کی کوئی بھی معلومات جس میں براہ راست عوام اور محکمے شامل ہوں اس بارے بتانے میں کوئی حرج نہیں اور اس تک ایسا کوئی نہیں بنا جو عوام سے متعلقہ معلومات بتانے کے حوالے سے کسی قسم کی پابندی لگا سکے محض کچھ ایسی معلومات جن کا تعلق ملکی سلامتی یا سکیورٹی سے ہو اس کے علاوہ تمام معلومات میڈیا اور شہریوں کو دی جا سکتی ہیں۔انہوں نے بی آئی ایس پی اور حبیب بنک کے نمائندگان کی جانب سے بینفشریز کے بارے میں بنیادی اور عام معلومات فراہم نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یوں معلوم ہوتا ہے ملازمین اپنی غلطیاں چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اعجاز حسین مغل نے مزید کہا کہ اسلام اور معاشرہ خواتین کو ایک باعزت مقام عطا کرتا ہے جبکہ بے نظیر انکم سپورٹ کی جانب سے جاری کردہ رقم کے حصول میں خواتین کی ناصرف تذلیل کی جاتی ہے بلکہ ان کو بنیادی آئینی سہولیات مثلا پینے کے لیے پانی، سایہ اور بیٹھنے کی مناسب جگہ بھی فراہم نہیں کی جاتیں جو ان کی عزت نفس مجروح کرنے کے مترادف ہے حکومت کی جانب سے ان باتوں کا سختی سے نوٹس لیا جانا چاہیے۔

وہاڑی کے نواحی علاقے کے دکاندار محمد اسرار (فرضی نام) نے بتایا کہ انہوں نے کچھ روز قبل ڈیوائس سے رقم خواتین کو دینے کا کام چھوڑ دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے ڈیوائس لی تھی تب سکیورٹی فیس 9 ہزار تھی اور ایک خاتون کو کیش جاری کرنے کا کمیشن صرف 28 روپے ملتا تھا جس کی ٹیکس کٹوتی کے بعد رقم صرف 22 روپے بچتی تھی ۔

طریقہ کار کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ کنیکٹ ڈیوائس تو کیش ٹرانسفر کے لیے استعمال کی جاتی ہے لیکن جو دکاندار سکیورٹی ادا کرتا ہے اس کی ڈیوائس میں کفالت کا آپشن کھول دیا جاتا ہے جب کوئی خاتون رقم لینے آتی ہے تو دکاندار کفالت کے آپشن کے بعد خاتون کا شناختی کارڈ نمبر لکھتا ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ خاتون اہل ہے یا نہیں اگر اہل ہو تو اس کی مقررہ رقم ظاہر ہو جاتی ہے جس کے بعد اس کا انگوٹھا لگوا کر بائیومیٹرک پراسس مکمل کیا جاتا ہے اور کیش کو دکاندار اپنے اکاونٹ میں ٹرانسفر کر لیتا ہے اور خاتون کو رقم ادا کر کے وصولی کا پرنٹ نکال دیتا ہے ۔

اسرار کا کہنا ہے کہ یہ کام کرنے کے لیے موٹی رقم رکھنا پڑتی ہے جبکہ زیادہ فائدہ نہیں ہے لیکن زیادہ تر دکاندار ناجائز طریقے سے پیسے کماتے ہیں تب ہی ان کو فائدہ پہنچتا ہے وہ بتاتے ہیں کہ کچھ دکاندار فی ہزار رقم کی 20 روپے فیس چارج کرتے ہیں اس طرح 7 ہزار کے عوض انہیں 140 روپے ملے اور 22 روپے کمیشن شامل کرکے ایک خاتون سے کل 162 روپے حاصل ہوتے ہیں، اس کے علاوہ مضافاتی علاقوں میں کٹوتی کے نام پر 5 سو سے ایک ہزار روپے تک رکھ لیے جاتے ہیں اور یہ سب ضلع لیول اور تحصیل لیول افسران کی آشیرباد سے کیا جاتا ہے کیونکہ اگر ان کی سپورٹ نہ ہو تو دوسرے ہی روز دکاندار بلاک کر دیا جائے اور اس کے خلاف مقدمہ درج ہوجائے۔

اسرار بتاتا ہے کہ بڑے شہروں سے چیکنگ کے لیے بھی ٹیمیں وزٹ کرتی رہتی ہیں لیکن اس بارے افسران کی جانب سے پیشگی اطلاع دے دی جاتی ہے اس طرح تمام دکاندار محتاط ہو جاتے ہیں۔



from Samaa - Latest News https://ift.tt/DRyEA9F

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے