پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پولیس افسران کے قانون میں درج وقت سے پہلے تبادلوں سے روک دیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے پولیس افسران کےسیاسی بنیادوں پرتبادلوں کے خلاف کیس پر سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جرائم اور عدم تحفظ کی وجہ سے عوام متاثر ہو رہے ہیں، عوام کے متاثر ہونے کی وجہ سےعدالت نے پولیس افسران کے تبادلوں اور تقرریوں کا نوٹس لیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پولیس کی بے ربط ٹرانسفر پوسٹنگ سے سارا نظام متاثر ہوتا ہے، قانون کے مطابق 3 سال سے پہلے سی پی او یا ڈی پی او کو ہٹایا نہیں جاسکتا، ڈی پی او اور سی پی او تعینات کرنا آئی جی کا اختیار ہے، کیا تمام تعیناتیاں آئی جی کرتے ہیں؟۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ پولیس افسران کے تبادلے مشاورت سے ہی ہورہے ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریامرکس دیئے کہ تاثر ہے پولیس کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے پولیس میں تفتیش کی مہارت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے، ناقص شواہد پیش کیےجاتے ہيں جن سے ملزمان کو فائدہ پہنچتا ہے، پوليس ملزمان کو فائدہ دےگی تو مظلوم کہاں جائے گا؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی مداخلت کی وجہ سے ہی عمران خان حملے کا مقدمہ درج نہیں ہورہا تھا، سپریم کورٹ کو اندراج مقدمہ کاحکم دینا پڑا کیونکہ کئی دن گزر چکے تھے، پنجاب حکومت خود قانون پر عمل کرے تو عدالتی حکم کی ضرورت نہیں پڑےگی۔
دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ خيبر پختونخوا میں بھی قتل وغارت میں اضافہ ہو رہا ہے، خیبر پختونخوا حکومت نے نوٹس کے باوجود پولیس تبادلوں کی رپورٹ جمع نہیں کرائی۔
سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کو پولیس آرڈر 2002 پر عمل درآمد کا حکم دیتے ہوئے نے پولیس افسران کے قانون میں درج وقت سے پہلے تبادلوں سے روک دیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ مقررہ وقت سے پہلے تبادلہ ناگزیر ہو تو وجوہات تحریر کی جائیں۔
عدالت عظمیٰ نے تمام صوبوں اور اسلام آباد کی انتظامیہ سے گزشتہ 10 سال میں پولیس افسران کے تبادلوں کی فہرستیں طلب کر لیں۔ کیس کی مزید سماعت جنوری کے دوسرے ہفتے میں ہوگی۔
from Samaa - Latest News https://ift.tt/picP4uR
via IFTTT
0 تبصرے