سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی مارچ کیخلاف جمعیت علمائے اسلام کے کامران مرتضیٰ کی درخواست غیر مؤثر قرار دے دی۔
سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کا مارچ روکنے کے لئے جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر کامران مرتضیٰ کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ دو ہفتے سے عمران خان کا مارچ شروع ہے، فواد چوہدری کے مطابق جمعے اور ہفتے کو مارچ اسلام آباد پہنچے گا، مارچ سے معاملات زندگی متاثرہو سکتے ہیں، مارچ پی ٹی آئی کا حق ہے لیکن عام آدمی کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہئے۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا حکومت نے احتجاج کو ریگولیٹ کرنے کا کوئی طریقہ کار بنایا ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ انتظامیہ اتنی کمزور ہے کہ مارچ کنٹرول نہیں کرسکتی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ ایگزیکٹیو کامعاملہ ہے ان سے ہی رجوع کریں، غیرمعمولی حالات میں ہی عدلیہ مداخلت کرسکتی ہے، انتظامیہ کے پاس صورتحال کنٹرول کرنے کے وسیع اختیارات ہیں تو مداخلت کیوں کریں۔
کامران مرتضیٰ نے مؤقف اختیار کیا کہ بات اب بہت آگے جا چکی ہے، پی ٹی آئی کے مارچ پر فائرنگ سے ایک شخص کی جان جاچکی ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی کامارچ توکافی دنوں سےچل رہا ہے، کیا آپ نے انتظامیہ سے رجوع کیا ہے، مارچ کے معاملے میں جلدی کیا ہے اور انتظامیہ کی غفلت کیا ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آپ نےدرخواست میں ماضی کی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا ہے، مارچ سیاسی مسئلہ ہے جس کا سیاسی حل ہو سکتا ہے، اس قسم کے مسائل میں مداخلت سےعدالت کيلئےعجیب صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بنديال نے کامران مرتضیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اپنی درخواست میں ایک آڈیو کا ذکر کیا ہے، اور اس آڈیو میں ہتھیار لانے کا ذکر ہے، آڈیو سچ ہے یا جھوٹ لیکن اس سے امن وامان کی صورتحال خراب ہوسکتی ہے، کیا 25 مئی کے مارچ کے لوگوں کے پاس اسلحہ تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ احتجاج کا حق لامحدود نہیں، آئینی حدود سے مشروط ہے، آپ کہہ رہے ہیں مارچ ابھی پنجاب کی حدود میں ہے، کیا آپ نے پنجاب حکومت سے رابطہ کیا ہے، اگر صوبے اور وفاق کا رابطہ منقطع ہو تو کیاعدالت مداخلت کرسکتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ ایک سینیٹر ہیں پارلیمنٹ کومضبوط کریں۔ جس پر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ میں ذاتی حیثیت میں عدالت آیا ہوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیسے مان لیں آپ حکومت کا حصہ بھی ہیں اور ذاتی حیثیت میں آئے ہیں۔
کامران مرتضیٰ نے پھر مؤقف اختیار کیا کہ بظاہرلگتاہےکہ انتظامیہ صورتحال کوکنٹرول نہیں کرسکتی۔ جس پر چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ بظاہرمارچ کےمعاملےمیں عدالت کی مداخلت قبل ازوقت ہوگی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ مارچ کامعاملہ تواسلام آبادہائیکورٹ میں بھی زیرالتواء ہے، آپ کیا چاہ رہے ہیں سپریم کورٹ ڈپٹی کمشنر کا کردارادا کرے۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ توہین عدالت کامعاملہ لارجربینچ میں زیر التواءہے، لارجربينچ ميں فریقین نےیقین دہانی کی خلاف ورزی پرجواب دیناہے، کیا آپ چاہتے ہیں یہ بینچ الگ سے مارچ کے معاملے میں مداخلت کرے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی کے 25 مئی کے جلسے کيلئے ایچ 9 گراؤنڈ کيلئے درخواست دی گئی، انتظامیہ نے ایچ 9 گراؤنڈ دینے سے انکار کیا تو سپریم کورٹ نے مداخلت کی، لیکن پھر گراؤنڈ مختص ہونے کے باوجود ہجوم ڈی چوک چلا آیا، کیا آپ اس بات سے خائف ہیں کہ 25 مئی والا واقعہ دوبارہ ہو سکتا ہے، اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو ایگزیکٹیو کے پاس وسیع اختیارات ہیں، لیکن آپ کے مطابق تو ایگزیکٹیو کے اختیارات 27 کلو میٹرتک محدود ہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کی مداخلت سےانتظامیہ اورپارلیمنٹ کمزورنہیں ہوگی۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ انتظامیہ کومتحرک کریں کہ وہ اپنا کردار ادا کرے، آئے روز اسلام آباد میں پارلیمنٹ سمیت کئی جگہوں پر احتجاج ہوتے ہیں، کیا کبھی باقی احتجاجوں کیخلاف آپ عدالتوں میں گئے ہیں، ایک مخصوص جماعت کےمارچ میں ہی عدالت کی مداخلت کیوں درکارہے۔
کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ مارچ کی وجہ سےایک پوراصوبہ مفلوج رہاہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بنديال نے کہا کہ آپ مفروضے کی بنیاد پر ہمارے پاس آئے ہیں، کیا انتظامیہ نے مارچ کيلئے جگہ کے تعين سے متعلق کوئی فیصلہ کیا ہے۔
عدالت نے ایڈيشنل اٹارنی جنرل عامررحمان کو روسٹرم پر بلا لیا۔ ایڈيشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو روات میں جلسے کا کہا تھا، انتظامیہ نے پی ٹی آئی سے بیان حلفی مانگا جو اب تک نہیں ديا گيا،
اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی یہ معاملہ چل رہا ہے، آدھا گھنٹہ دیں تو انتظامیہ سے معلومات لے لیتا ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر واضح طور پر آئینی خلاف ورزی کا خطرہ ہو توعدلیہ مداخلت کرے گی۔ کامران مرتضیٰ نے کہا کہ درخواست میں ماضی کی آئینی خلاف ورزیوں کاحوالہ بھی موجود ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہوسکتا ہے خلاف ورزیوں پر دوسرے فریق کا اپنا مؤقف ہو،سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی پرمعاملہ پیچیدہ ہو جاتا ہے، عدالتي حکم عملدرآمد کے لیے ہوتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی مارچ کے خلاف کامران مرتضیٰ کی درخواست غیر مؤثر قرار دے دی، اور ریمارکس دیئے کہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کے مؤقف کے بعد حکم جاری کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔
ایڈيشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ ملک میں امن و امان برقرار رکھنے کيلئے عدالت کی مداخلت چاہتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اب تو موجودہ درخواست غیر مؤثر ہو گئی ہے، کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ صورتحال ایگزیکٹیو کے بس سے باہر ہو چکی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق نے 5 نومبر کو بھی صوبہ پنجاب کو آرٹیکل 149 کے تحت خط لکھا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ کیا وفاق کو نہیں معلوم کہ اپنی ذمہ داری کیسے پوری کرنی ہے، سپریم کورٹ انتظامی معاملات میں کیا کر سکتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ریاست طاقت ور اور بااختیار ہے۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ سمجھ سکتے ہیں کہ آپ موجودہ صورتحال سے پریشان ہیں، آج کی ہیڈ لائن باجوڑ اور لکی مروت میں حملے کی تھی جس سے پوری قوم متاثر ہوتی ہے، ملک میں ہنگامہ نہیں امن و امان چاہتے ہیں، ایسا حکم دینا نہیں چاہتے جو قبل از وقت ہو اور اس پر پھر عمل درآمد نا ہو، آرٹیکل 149 کے تحت وفاق کا صوبوں کو خط بہت سنجیدہ معاملہ ہوتا ہے۔
from Samaa - Latest News https://ift.tt/jeR7pD5
0 تبصرے