ایک جانب بھارت پاکستان کو بنجر بنانے کے لئے سندھ طاس معاہدے کے خلاف ڈیموں کی تعمیر کررہا ہے تو دوسری جانب وہ عالمی بینک کی مصالحتی عدالت میں قانونی عمل رکوانے کی مذموم کوششیں بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔
بھارت گزشتہ 3 دہائیوں سے سندھ طاس معاہدے کی اپنی پسند کی تشریح کرکے پاکستان کے دریاؤں کا پانی روکنے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔
بھارت نے پاکستان کے پانی پر اپنا حق جماتے ہوئے کئی دیاؤں پر ڈیموں کی تعمیر شروع کررکھی ہے ان میں سے کشن گنگا اور ریتلے ڈیم بھی شامل ہیں۔
کشن گنگا اور ريتلے آبی منصوبے پاکستان کے خلاف بھارتی آبی جارحیت کے عکاس ہیں، 330 میگا واٹ کے کشن گنگا منصوبے کو ماہرین ہر اعتبار سے محض اسٹریٹجک منصوبہ قرار دے رہے ہيں، کشن گنگا منصوبے کے ڈیزائن سے پاکستان کا ایک ہزار میگا واٹ کا نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ شدید متاثر ہو سکتا ہے۔
بھارت کے آبی منصوبوں کے متنازع ڈیزائن پر پاکستان نے 19 اگست 2016 کو عالمی بینک کی ثالثی عدالت سے باضابطہ رجوع کیا۔ پاکستان کے مدلل مؤقف اور طویل کوششوں کے بعد ورلڈ بینک نے مارچ 2022 میں عدالتی تشکیل کا عمل شروع کیا۔
عالمی بنک کی ثالثی عدالت سے بھارت کے بھاگنے کی ہر کوشش ناکام بنانے کے لیے پاکستان کا کیس ٹھوس نکات پر مبنی ہے۔ اپنے ہائیڈل پاور منصوبے غیر قانونی ہونے کی وجہ سے اب بھارت عالمی بینک کی مصالحتی عدالت میں قانونی عمل رکوانے کی کوشش کررہا ہے۔
پاکستان نے کسی صورت سندھ طاس معاہدے میں نظرثانی کی اجازت نہ دینے کا ٹھوس فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان نے واضح موقف اپنا رکھا ہے کہ سندھ طاس دو خود مختار ریاستوں کے مابین وقت کے ساتھ ثابت شدہ مؤثر معاہدہ ہے، سندھ طاس معاہدے کے تحت دریائے جہلم اور چناب کے پانیوں پر پاکستان کا حق ہے۔
اس معاہدے میں کوئی بھی تبدیلی دونوں پارٹیوں کے باہمی اتفاق رائے سے ہی ممکن ہے، سندھ طاس معاہدے کی کسی شق کی یک طرفہ تبدیلی و تشریح کی کوئی اہمیت نہیں، سندھ طاس معاہدے میں نظرثانی کی تجویز ناجائز اور بے ایمانی کے بھارتی رویے کی عکاس ہے۔
from Samaa - Latest News https://ift.tt/O4i3LZM
via IFTTT
0 تبصرے