لاہور کی خصوصی عدالت میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) کی جانب سے دائر منی لانڈرنگ کیس کی سماعت آٹھ اکتوبر تک ملتوی کردی گئی ہے۔ آج ہونے والی سماعت میں وزیراعظم شہباز شریف بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
جمعہ 30 ستمبر کو اسپیشل سینٹرل عدالت کے جج اعجاز حسن اعوان نے حمزہ شہباز اور شہباز شریف کے خلاف دائر ایف آئی اے کے منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کی۔
عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو آج حاضری کیلئے طلب کیا تھا۔ عدالت نے بریت کی درخواستوں پر وکلاء کو دلائل کے لیے بھی آج ہی طلب کیا تھا۔ سماعت کے موقع پر معاون خصوصی عطا تارڑ، شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز کے ہمراہ ایف آئی اے عدالت پہنچے۔
حمزہ شہباز کی استثنیٰ
سماعت کا آغاز ہوا تو عدالت کے روبرو وکیل صفائی نے مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ حمزہ شہباز کمر درد کے باعث آج عدالت میں پیش نہیں ہوسکیں گے۔ اس موقع پر امجد پرویز کی جانب سے حمزہ شہباز کی ایک روزہ حاضری معافی کی درخواست دائر کی گئی۔
وکیل کی جانب سے دائر درخواست میں عدالت استدعا کرتے ہوئے کہا گیا کہ حمزہ شہباز کی ایک روزہ حاضری معافی کی درخواست منظور کی جائے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ شہباز شریف کہاں ہیں؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ وہ راستے میں ہیں اور کچھ ہی دیر میں عدالت پہنچ رہے ہیں۔
امجد پرویز نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف کی آج کابینہ کی میٹنگ تھی پھر بھی وہ لاہور آئے ہیں۔ حمزہ شہباز بیمار ہیں میڈیا پر بھی نہیں آ رہے۔ حمزہ شہباز کی میڈیکل گراؤنڈ پر حاضری معافی کی درخواست دائر کی ہے۔
فاضل جج نے کہا کہ حمزہ شہباز نے گاڑی میں ہی بیٹھ کے آنا تھا آجاتے۔ جس پر امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ حمزہ شہباز کا میڈیکل سرٹیفکیٹ درخواست کے ساتھ لف ( سربمہر لفافہ ) کیا ہے۔ حمزہ شہباز کی طبیعت ٹھیک نہیں اس لیے نہیں آ سکے۔
دلائل کا آغاز
درخواست دائر کرنے کے بعد امجد پرویز کی جانب سے بریت کی درخواستوں پر دلائل کا آغاز ہوا۔ شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ 2008 سے 2018 تک 25 ارب کی منی لانڈرنگ ہوئی۔ ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ کمپنوں کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گی۔ ایف آئی اے کا الزام عمومی نوعیت کا ہے۔ شہباز شریف کسی کمپنی کے ڈائریکٹر یا شیعر ہولڈرز نہیں رہے۔ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ کمپنیاں شریف گروپ آف کمپنیز کی ہیں۔ دس سالوں میں شہباز شریف کسی کمپنی کے ڈائریکٹر اور شیعر ہولڈر نہ تھے۔ یہ ایف آئی آر انکوائری کے بعد درج ہوئی۔ ایف آئی آر کے پہلے پیراگراف میں شہباز شریف کا کردار نہیں لکھا گیا۔
امجد پرویز نے یہ بھی کہا کہ دو ارب 80 کروڑ کے ایک اکاونٹ کو استغاثہ سے بعد میں نکال دیا گیا۔ اس اکاونٹ کا شریف فیملی سے کوئی تعلق نہیں ہے اسلیے چالان میں یہ اکاونٹ لکھا ہی نہیں۔ انہوں نے تفتیش میں مانا کہ یہ اکاونٹ مشتاق چینی کا بے نامی اکاونٹ ہے۔ اگر یہ الزام سلمان شہباز پر ہو تو قانون اور سرکار حرکت میں اجاتی ہے۔ قانون کے تحت مشتاق چینی والے اس اکاونٹ پر بھی وہی کاروائی ہونی چاہیے تھی. ایک الگ کیس بننا چاہیے تھا۔
دلائل کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ حیرت یہ ہے کہ مشتاق چینی کے اکاونٹ پر سرکار نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اس دوران پراسیکیوٹر ایف آئی اے نے اعتراف کیا کہ تفتیش میں کچھ چیزیں نکل گی ہیں، اس لیے چالان 25 ارب کی بجائے 16 ارب کا دائر کیا گیا۔
سماعت کے دوران وزیراعظم پاکستان شہباز شریف ایف آئی اے کی خصوصی عدالت میں پیش ہوئے۔ شہباز شریف کے وکیل نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ منقولہ وغیر منقولہ جائیداد رکھنا بنیادی قانون ہے۔ اس پر جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ ڈیکلیئر ہونی چاہیے ورنہ یہ بلیک منی ہوگی۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایسا ہو تو قومی ادارہ ایف بی آر کارروائی کرتا ہے۔ یہ ایف آئی آر سابقہ دورے حکومت میں درج ہوئی۔ اس سابقہ دور میں مشیر احتساب کے بنائے ایک کیس میں عدالت نے کہا کہ ایف آئی اے کا استعمال پولٹیکل انجینیرنگ کے لیے ہوا۔ ایف آئی آر درج ہوئی تب شہباز شریف جیل میں تھے۔ ایف آئی آر کے متن میں کم اجرت والے ملازمین نے یہ نہیں کہا کہ یہ اکاؤنٹس شہباز شریف کے کہنے پر کھلے ہیں۔ استغاثہ کہتا ہے کہ چار ارب روپے کی چینی کی فروحت کو چھپایا گیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایف آئی اے کو کاروائی کرنے کا اختیار ہے۔ اس میں ایف بی آر یا انکم ٹیکس والے کاروائی کرسکتے ہیں۔
واپس جانے کی اجازت
امجد پرویز کے دلائل کے دوران شہباز شریف نے کمرہ عدالت سے واپس جانے کی اجازت مانگی۔ شہباز شریف نے کہا کہ وہ روسٹروم پر آکر بات کرنا چاہتے ہیں۔ عدالت کی اجازت پر شہباز شریف روسٹروم پر آگئے اور کہا کہ میں عدالتی حکم پر پیش ہوا ہوں۔ میری اسلام آباد میں مصروفیات ہے۔ میں جانا چاہتا ہوں عدالت مجھے اجازت دے۔ میرے خلاف جھوٹا منی لانڈرنگ کا کیس بنایا گیا۔ میں نے بیس سال وزیراعلیٰ رہا۔
شہباز شریف روسٹروم پر
وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ بطور وزیراعلیٰ ایسے فیصلے کیے جس سے خاندان کے بینی کاروبار کو نقصان پہنچا۔ میں نے شوگر ملز کو سبسڈی دینے کی سمری مسترد کی۔ میں نے انکار کیا اور کہا کہ یہ پنجاب کی غریب عوام کا پیسہ ہے۔ مجھے سفارش بھی آئی مگر میں نے سمری مسترد کی۔ اب مشکل ترین حالات میں مجھے اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی قائد نے سیاست کو داؤ پر لگا کر ریاست کو بچانے کی ذمہ داری دی۔ پیٹرول کی قیمت اوپر جا رہی ہے، ملک میں سیلاب ہے، ہمارے لیے اب ایک ایک ڈالر قیمتی ہے۔ لیکن میں نے چینی کی ایکسپورٹ سے انکار کیا کیونکہ چینی کی قیمت بڑھی تو عوام مجھے معاف نہیں کرینگے۔ زر مبادلہ آتا کسے اچھا نہیں لگتا۔ لیکن میں عوام پر چینی مہنگی کرنے کا بوجھ نہیں ڈال سکتا۔ اگلے مہینے جب چینی کا سیزن شروع ہوگا تب ہم دیکھیں گے کہ ایکسپورٹ کا کیا کرنا ہے۔
لاہور کی خصوصی عدالت کی جانب سے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کو جانے کی اجازت دے دی گئی، جس کے بعد وہ عدالت سے روانہ ہوگئے۔
عدالت نے آئندہ سماعت میں بریت کی درخواست پر مزید دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت آٹھ اکتوبر تک ملتوی کردی۔
from Samaa - Latest News https://ift.tt/Z8cBNDI
via IFTTT
0 تبصرے