کراچی جاتے ہوئے مظفرگڑھ شہر سے 5 کلومیٹر دور بستی پیر جہانیاں کی رہائشی 40 سالہ کندن مائی اپنی زندگی کی 3 دہائیاں دہکتے ہوئے سورج کے نیچے اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتے گزار چکی ہے۔ اس کے باپ دادا نے بھی اپنی زندگی اینٹیں تھاپتے گزاری۔ پیشگی نظام میں جکڑی کندن مائی روزانہ بامشکل 500/600 اینٹ بناتی ہے۔ سخت گرم اور ٹھنڈے موسم میں صبح سویرے کام پر پہنچ جاتی ہے اور گارے سے اٹے ہاتھ اور بھٹی کی حدت سے دن کا آغاز ہوتا ہے۔
دن بھر کی مشقت کے بعد مزدوری کی رقم میں سے آدھی رقم تو پیشگی ادائیگی میں کٹ جاتی ہے جو انہوں نے بیماری، شادی اور موت کے مختلف موقع پر ٹھیکے دارسے لی ہوئی ہے۔ ٹھیکےدار 1 ہزار اینٹیں بنانے کے 9 سو لےکر 1 ہزار روپے اجرت دیتا ہے جبکہ حکومت پنجاب کے گزٹ نوٹیفکیشن میں 1ہزار اینٹ کی کم ازکم اجرت 1450 روپے مقرر کی ہوئی ہے۔
کندن مائی کا کہنا تھا کہ اس کو کبھی پوری مزدوری نہیں ملی۔اسکے 2 بیٹے اور 1 بیٹی بھٹہ مزدوری کرتے ہیں۔ بیٹی شادی کے بعد بھی اینٹیں بناتی ہے۔ ایک بیٹے کی شادی کی تو وہ دوسرے شہر چلا گیا۔ خاوند ایک حادثے میں چل بسا اور وہ اور اس کا 18 سالہ بیٹا فدا حسین قرض بھی اتاررہے ہیں۔ کندن مائی کی خواہش ہے کہ زندگی میں بیٹے کی شادی کردے۔
نسل در نسل غلامی کی چکی میں پسنے والے بھٹہ مزدور جدید دور میں بھی استحصال کا شکار ہیں۔ بھٹہ مالکان کمزور معاشی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر قرض کا بوجھ ڈال دیتے ہیں جسے ساری زندگی ادا نہیں کر سکتے۔
مظفرگڑھ ضلع میں 293 بھٹے رجسٹرڈ ہیں۔ جہاں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد 17 ہزار سے زائد ہے جن میں مرد،خواتین،بچے اور بوڑھے شامل ہیں۔ گزشتہ دور حکومت میں محکمہ لیبر پنجاب اور اسکول ایجوکیشن کے تعاون سے بھٹہ مزدوروں کے بچوں کو تعلیم دینے کا پروگرام شروع کیا گیا۔
اس پروگرام کے تحت بچوں کو اسکول یونیفارم، کتابیں اوراسٹیشنری مفت دی جاتی تھی جب کہ 2 ہزار روپے وظیفہ بھی دیا جاتا تھا لیکن 2 سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا اور موجود حکومت نے فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے یہ پروگرام بند کردیا جس سے بچے ایک بار پھر تعلیم چھوڑ کر بھٹہ مزدور بن گئے۔
دور جدید میں اس سے بڑا ستم کیا ہو گا کہ جن بچوں نے اسکول جانا تھا وہ والدین کی غربت کے باعث کم عمری میں ہی محنت مشقت پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ دور جاہلیت میں مزدوروں کو انتہائی کم معاوضے کے عوض خرید کر’غلام‘ بنالیا جاتا تھا اور ان سے ہرطرح کی مزدوری کرائی جاتی تھی۔ اس وقت کا سماج اس کو’جائز‘ بھی قراردیتا تھا۔ وقت کا پہیہ گھوما تو حالات بدلے لیکن بھٹہ مزدورآج بھی دور جاہلیت کی ایک ’بری‘ یادگار کی طرح ہمارے معاشرے اور سماج کے ماتھے پر’کلنک‘ کی طرح موجود ہیں۔
اکیسویں صدی میں بھی بھٹہ مزدور استحصال کا شکار ہیں اور نسل درنسل غلامی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ بھٹہ مالکان غریب ماں باپ کی ’مجبوریوں‘ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے چھوٹے و کمسن بچوں سے بھی معمولی ’یومیہ اجرت‘ پر دن بھر کی ’خاصی‘ مشقت لے لیتے ہیں۔
محکمہ لیبر کے طاہر گورچانی کا کہنا ہے کہ کم اجرت شکایات نہیں ملتی لیکن جن صنعتی اداروں سے شکایات موصول ہوتی ہیں ان کے خلاف لیبر قوانین کے تحت کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔
گزشتہ تین ماہ سے اسموگ کے باعث پنجاب بھر میں اینٹوں کے بھٹوں کی بندش نے بھٹہ مزدوروں کے ساتھ ساتھ بھٹہ مالکان کے مسائل بھی اضافہ کردیا ہے۔ شیخ عابد حسین بھٹہ مالک کا کہنا ہے کہ 3 سال قبل ا کروڑ روپے سے زائد میں بھٹہ خریدا تھا لیکن اسموگ کے باعث 3 ماہ کی بندش نے مشکلات بڑھا دی ہیں۔ انھوں نے حکومت پنجاب کی جانب سے زیگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقلی کی پابندی ظالمانہ اقدام قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ 12 لاکھ روپے سے 20 لاکھ روپے کی اضافی اخراجات کے بعد زیگ زیگ ٹیکنالوجی پر تیار کی گئی اینٹ کا معیار ختم ہوجاتا ہے۔
اول درجہ کی اینٹ مکمل پکائی نا ہونے کی وجہ سے دوئم درجہ کی تیار ہوتی ہے جس سے بھٹہ مالک کا نقصان ہے۔بھٹہ ایسوسی ایشن کی جانب سے مقررہ اجرت مزدور کو بروقت دے رہے ہیں۔ پرانی بھٹہ مالکان کے پاس نسل در نسل لیبر کام کرتی آرہی ہے لین دین کے معاملات بھی ہوتے ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں بھٹہ چلانا مشکل ہوگیا ہے۔۔
ڈسٹرکٹ آفیسر ماحولیات عبدالروف نے بتایا کہ ضلع مظفرگڑھ کے293 بھٹوں میں سے 172 بھٹے زیگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل ہوچکے ہیں جبکہ 99 بھٹے تیاری کے مراحل میں ہیں،22 بھٹوں کو سیل کیا گیا،17 مالکان کے خلاف مقدمات درج کرائے اور 48 لاکھ روپے جرمانہ وصول کیا گیا۔ حکومت پنجاب کی ہدایت پر اب زیگ زیگ ٹیکنالوجی کی پابندی سارا سال رہے گی۔ زگ زیگ ٹیکنالوجی کی پابندی نے بھٹہ مالکان اور بھٹہ مزدور کے مسائل میں اضافہ کردیا ہے۔ مزدور اپنی پوری اجرت کا مطالبہ کررہے ہیں۔ عمران خان نے فروری 2017 میں بھٹہ مزدوروں کےلیے آواز اٹھانے کی ہامی بھری تھی لیکن ان کے دور حکومت میں بھی بھٹہ مزدور جبری مشقت کا شکارہیں۔
مزدوروں سےمتعلق قوانین میں فیکٹریز ایکٹ 1934،پنجاب انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ 2010،معاوضہ جات کا قانون 1923،تنخواہوں کی ادائیگی کا ایکٹ 1936،کم از کم اجرت آرڈیننس 1961، ایمپلائز سوشل سیکیورٹی آرڈیننس 1965 اورایمپلائزاولڈ ایج بینیفٹ ایکٹ 1976 موجود ہیں۔
پاکستان میں مزدوروں سے متعلق قوانین عمر، جنس اور مذہب کی کوئی قید نہیں ہے۔ ملکی قوانین کے تحت بچوں سے مشقت لینا منع ہے۔ انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن اور پاکستان کا آئین جبری مشقت کو غلامی کی ایک شکل قرار دیتا ہے۔
from SAMAA https://ift.tt/D1hjPEt
0 تبصرے